شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
اسرائیلی وزیر اعظم نے ہر موقع پر تصادم کو بڑھایا اور جنگ بندی کی کوششوں کو ناکام بنایا
تنازعے کی توسیع اور جنگ بندی کی اپیلیں
بیروت، لبنان – اسرائیلی افواج کی جانب سے رفح میں حماس کے معروف رہنما یحییٰ سنوار کی ہلاکت نے مغربی تجزیہ کاروں کے درمیان غزہ کے جاری تنازعے میں ممکنہ امن کی بات چیت کو جنم دیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو فوجی کارروائیوں میں نرمی کے بجائے اس موقع کو جنگ کو طول دینے کے لیے استعمال کریں گے۔ ان کا مقصد ذاتی اور سیاسی فوائد حاصل کرنا اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور قبضے کو مزید پختہ کرنے کی اسرائیلی پالیسی کو آگے بڑھانا ہے۔
نتن یاہو کی سیاسی ترجیحات
نتن یاہو کی سیاسی زندگی پر بدعنوانی کے الزامات کے سائے ہیں، جن میں دھوکہ دہی، رشوت اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہیں۔ اگر وہ مجرم ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں ایک دہائی تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ ان الزامات میں میڈیا کوریج کے بدلے میں مبینہ طور پر فوائد حاصل کرنا شامل ہے، جس نے ان کی اقتدار کھونے کے خوف کو بڑھا دیا ہے۔ نتیجتاً، نتن یاہو عدلیہ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے قوانین تجویز کیے ہیں جو عدلیہ کی خود مختاری کو محدود کر دیں۔ وہ بین الاقوامی تنقید کا بھی سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات کے حوالے سے۔
تجزیہ کار ڈیانا بُتّو کے مطابق نتن یاہو ایک عدم تحفظ کی فضا میں خود کو مضبوط کرتے ہیں، جسے وہ اسرائیل میں اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب نتن یاہو نے اپنے گھر پر حزب اللہ کے ڈرون حملے کو ایرانی ایجنٹوں کے ساتھ منسلک کیا، جس سے ممکنہ طور پر ایران کے خلاف تصادم کو بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔
جنگ کی مستقل حالت اور اس کے نتائج
غزہ میں جاری جنگ، جو 2023 میں حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیلی جارحیت سے شروع ہوئی، نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان اور نقل مکانی کو جنم دیا ہے۔ یحییٰ سنوار کی موت کے باوجود، ماہرین جیسے کہ عمر رحمٰن کا خیال ہے کہ نتن یاہو کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کے مطابق نتن یاہو کا مقصد طویل المدتی منصوبے کے تحت غزہ کی آبادی کو کم کرنا اور تباہی پھیلانا ہے۔
اسرائیل کی فلسطینی خودمختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی حکومتیں ہمیشہ فوجی کارروائیوں کو سیاسی مذاکرات پر ترجیح دیتی رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ماہر یزید صیغ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومتیں مستقل طور پر حقیقی علاقائی رعایتوں سے انکار کرتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں تصادم کا چکر جاری رہتا ہے۔
جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود تصادم کی شدت
نتن یاہو کا موقف مستقل طور پر فوجی کارروائیوں کی حمایت میں رہا ہے، چاہے وہ غزہ میں ہو یا لبنان میں حزب اللہ کے خلاف۔ وہ شمالی اسرائیل کی حفاظت اور اسرائیلی قیدیوں کو بچانے کے بہانے فوجی کارروائیوں کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے بین الاقوامی دباؤ، خاص طور پر امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کے مطالبات کو بھی نظر انداز کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا حکم بھی دیا جب وہ ایران کے دورے پر تھے۔
اسرائیلی مبصرین جیسے اورن زیو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے سخت گیر گروہ ان فوجی کامیابیوں کو عارضی فتوحات کے طور پر دیکھتے ہیں، اور مزید جارحانہ اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سنوار کی موت بھی عارضی اطمینان کا باعث بنے گی، لیکن نتن یاہو کے حامیوں کی جنگ جاری رکھنے کی خواہش کم نہیں ہو گی۔
تشدد کا چکر اور مزاحمت
اسرائیل کی جانب سے حماس کو ختم کرنے کی کوششیں اکثر ناکام رہی ہیں، اور ان کا نتیجہ حماس کی سیاسی قوت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 2004 میں شیخ احمد یاسین کے قتل کے بعد حماس نے 2006 کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
ماہرین جیسے کہ بُتّو اور رحمٰن خبردار کرتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کو کمزور کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود مزاحمت جاری رہے گی۔ اسرائیلی قبضے کی وجہ سے پیدا ہونے والی گہری شکایات مزاحمت کو ہوا دیتی رہیں گی، اور یہ تنازع اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بنیادی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔
خلاصہ:
یحییٰ سنوار کی موت سے خطے میں امن کے امکانات بہت کم ہیں۔ جب تک فلسطینیوں کی بے دخلی اور اسرائیلی قبضے کے مسائل حل نہیں کیے جاتے، تشدد اور مزاحمت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔