×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

عورتوں میں نشہ کی شرح بڑھتی جارہی ہے

آبان 24, 1393 888

بڑھتے ہوئے مسائل نے خواتین کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ حالات میں تیزی سے ہونے والی ابتری نے انہیں ذہنی مسائل سے دوچار

کردیا ہے۔ اس ذہنی کرب سے نکلنے کے لیے اب خواتین بھی تیزی سے نشے کی لت میں مبتلا ہونے لگی ہیں۔ جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
عورتوں میں نشہ کی شرح بڑھتی جارہی ہے جو کافی خطرناک ہے۔ غریب عورت اپنے مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے نشہ کو بہترین ساتھی تصور کرتی ہیں۔ وہ خواتین جن کے پاس وافر مقدار میں پیسہ ہوتا ہے وہ دوسری بیگمات کی دیکھا دیکھی نشہ شروع کردیتی ہیں۔خواتین میں نشے کا پھیلتا ہوا زہر حالات کی خرابی، گھریلو نامساعد حالات اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے فروغ پذیر ہے۔
ہیروئن کا نشہ ۱۹۸۰ءکی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس مکروہ دھندے نے آہستہ آہستہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اونچے طبقے کی خواتین میں نشہ کرنے کی شرح۴۰؍فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں سرفہرست سگریٹ نوشی ہے۔ دراصل ان خواتین کا ماحول آزادنہ قسم کا ہوتا ہے۔ مردو عورت میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نشہ معیوب نہیں۔
پھر سگریٹ سے آگے بڑھ کر یہ شراب نوشی بھی شروع کردیتی ہیں۔ ایک ایسی ہی مالدار خاتون سے نشے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا: ”یہ ہمارے اسٹیٹس کی علامت ہے۔ ہمیں اپنے مغربی طرز کے رہن سہن کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔“
زیادہ تر اونچے طبقے کی۱۵ سے ۲۵؍سالہ لڑکیاں نشہ بالخصوص سگریٹ نوشی کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض تو ہیروئن بھی پیتی ہیں۔
ایک کالج کی لڑکی نے بتایا کہ تین سال پہلے اسے ہیروئن پینے کی لت لگی۔ وہ شروع میں ایک آدھ سگریٹ پیتی تھی اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ اس کی ضرورت بنتی چلی گئی۔ ہیروئن نہ ملنے پر شدید تکلیف ہوتی ہے۔ ہاتھ پائوں اور کمر میںدرد ہوتا ہے۔ ایسے میں زیادہ شدید درد ہڈیوں میں ہوتا ہے جسے دور کرنے کے لیے ہیروئن پینی پڑتی ہے۔
اس طرح کی کئی لڑکیاں تو نشے کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ عادت ان سے نہیں چھوٹتی۔ بعض کاروباری لڑکیاں اس قبیح دھندے میں ملوث ہوتی ہیں۔وہ کالجوں میں لڑکیوں میں نشہ کی عادت ڈالتی ہیں۔
شروع شروع میں ایک لڑکی نشہ کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے پورے گروپ میں نشہ کی یہ وباءپھیل جاتی ہے۔ شروع میں شوقیہ نشہ کرتی ہیں مگر پھر عادی ہوجاتی ہیں۔ لاعلمی کی وجہ سے بھی بعض لڑکیاں نشہ کرنے لگتی ہیں۔
ہاسٹلز میں رہنے والی بعض لڑکیاں ایسے خاندانوں سے ہوتی ہیں جن میں کچھ مسائل پائے جاتے ہیں۔ جب وہ امتحانوں میں ناکام ہوتی ہیں تو وہ نشہ شروع کردیتی ہیں۔ یہ عورتیں نشہ کی اتنی عادی ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ ہیروئن کو سرنج کی مدد خود ہی اپنے بازو میں اتارتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان عورتوں تک نشہ پہنچاتا کون ہے؟ نشہ کو ملک میں پھیلانے کے لیے بہت سارے گروہ کام کررہے ہیں۔ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ یہی لوگ عورتوں کو نشہ کے عادی بنارہے ہیں۔ نشہ باز خواتین اپنا علاج نہیں کرواتیں کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں اس طرح ان کی بدنامی ہوگی۔
زیادہ نشہ استعمال کرنے کی وجہ سے بہت ساری خواتین پاگل بھی ہو جاتی ہیں۔ شوبز سے تعلق رکھنے والی بعض لڑکیاں شراب اور چرس استعمال کرتی ہیں۔
خیال ہے کہ لڑکیاں زیادہ چرس استعمال کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شراب کا استعمال شروع کردیتی ہیں۔ قبائلی علاقے کی عورتیں نسوار رکھتی ہیں۔ الیکڑانک میڈیا پر نشے کو گلیمرسے انداز میں دکھانا بھی خواتین میں نشے کا باعث بنتا ہے۔ شراب اور سگریٹ وغیرہ کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ خواہ مخواہ ہی سگریٹ اور شراب پینے کو دل چاہتا ہے۔ ان چیزوں کو استعمال کرنے والوں کو اتنا صاف گواور بہادر دکھایا جاتا ہے کہ لوگ اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

Login to post comments