×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

حلال مال کا اولاد کے نیک ہونے میں بڑا اثر ہے

آبان 21, 1393 943

اگر ہم یہ کہیں کہ مدرسے والے ہی سارا کچھ کریں گے ،سکول والے کریں گے ،نہیںنہیںبلکہ والدین اپنے گھر کا ماحول بنائیں فکر مند ہوں

بچے اپنے والدین کو دیکھ کر بدلیں گے، اگر والدہ خود ٹی وی لگا کر بیٹھی رہے گی ،کیبل لگا کر بیٹھے گی اور توقع کرے کہ بچہ سو جائے ،بچی سو جائے اور اٹھ کر تہجد پڑھے ،کیسے ہو جائے گا؟کیسے وہ تہجد پڑھیں گے؟ ہم بہت سی برکات سے محروم ہیں ،وقت کم ہے میرے دوستو !بزرگو!میری محترمہ مائوں !بہنو! بیٹیو! ارادہ کریں کہ آج سے رات کو ہم جلد سوئیں گے ،جلد سوجائیں حتی الوسع دس بجے سے آگے نہ جائیں، رات کو نیند پوری ہونی چاہیے کوشش کریں اپنی مصروفیات کو تھوڑا سا آگے پیچھے کردیں۔
ز’’والدین کی دسویں ذمہ داری‘‘ جب بچے سوئیں تو انکو عادت ڈالیں باوضو ہو کر سو نے کی اور سوتے ہوئے انہیں آیت الکرسی پڑھنا یاد دلائیں،تین تین دفعہ سورہ اخلاص ،سورہ فلق اور سورۃ الناس پڑھنا ،اول و اخر تین تین دفعہ درورد شریف پڑھ کر اور تینوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکیں ،سورۃ بقرہ کا آخری رکوع پڑھ کر سونے والے کو تہجد کا ثواب ملتا ہے اور شیاطین کے شر سے حفا ظت ملتی ہے ،اس کو عادت بنائیں ،سب پر پھونکیں ، اپنے جسم پر ہاتھ پھیریں،پورا گھر شیطان سے، جنات سے ،برے خواب سے ،خون کے چھینٹوں سے ،نحوستوں سے محفوظ رہے گا، ’’ایک ماں کا بیٹے کی تربیت کا سبق آموز واقعہ‘‘ اس پرمیں ایک والدہ کی مثال دیتا ہوں ایسی فکر مند کہ کاش میری اور آپ کی بیویاں، ہماری بیٹیاں،ہماری مائیں ان کو یہ فکر لگ جائے ایک والدہ نے یہ عزم کیا کہ میں نے اپنے بچے کا یقین بنانا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے لینے والابن جائے تو بچے کو کہہ دیا کہ جب تمہیں بھوک لگے تو کھانا تم نے اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے۔
’’صبح کی نماز کے بعد سونا بے برکتی کا ذریعہ ہے‘‘ اور صبح کی نماز کے بعد سونا یہ انتہائی نقصان دہ ہے بزرگوں نے لکھا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد کا وقت انتہائی برکات والا ہے ،دعائوں والا ہے ،خالی ذہن ہوتا ہے جو پڑھیں گے دل و دماغ میں بیٹھ جائے گا، مغرب کو دیکھ کر ہمارا معمول بن گیا کہ رات دیر سے سوکر صبح نماز کے لیے اٹھتے ہی نہیں اور اگر اٹھیں بھی تو بچے بھی کیا، بڑے بھی کیا سب نماز کے بعد سوجاتے ہیں، سورج طلوع ہو رہا ہے ،نمازیں قضا ہو رہی ہیں ،تلاوت اور ذکر اور مطالعہ کا اہم وقت جا رہا ہے اس بات کا خیال کریں اور اس سے بچیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا خیال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ز’’والدین کی گیارہویں ذمہ داری‘‘ والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اہم بات اولاد کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا ہے ،بعض والدین حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں اور بچے پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتے ہیں، اور والدین گھر میں غصے میں رہتے ہیںیہ طریقہ انتہائی غلط ہے اور بعض والدین اس قدر نرمی کرتے ہیں کہ بچوں کو والدین کا ڈر ہی ختم ہو جاتا ہے وہ الٹی سیدھی حرکات میں مبتلا رہتے ہیں ان کووالدین کا کوئی ڈر نہیںرہتا ،لاڈ پیا ر اتنا ہے کہ انکی غلط حرکتیں دیکھ کر بھی والدین روکتے نہیں ہیں اگر کہا جائے تو کہتے ہیں کہ نادان ہیں بچے ہیں ،ارے! بچے نادان ہیں تم تو نادان نہیں ہو ،بچے نادان ہیں والدین تو نادان نہیں ہیں اس لیے چاہیے کہ والدین معتدل انداز سے بچوں کے ساتھ پیار محبت بھی کریں تاکہ بچے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کر سکیں ،بچے اپنے والدین کے ساتھ دل لگی ،ہلکی پھلکی خوش طبعی بھی کریں ،ہاں مگر یہ نرمی اور یہ محبت اصلاح سے مانع نہ ہو، اگر کوئی غلط حرکت یا عادت بچوں میں دیکھیں تو فوراً والدین اس پر روک ٹوک کریں ،حدیث پاک میں آتا ہے:کہ تمہاری لاٹھی ہر وقت گھر میں لہراتی رہنی چاہیے، مارو نہ ہر وقت، بس ڈر رہنا چاہیے بچے کو کہ اگر میں بے وقت گھر جائوں گا ،اگر میں کسی غلط دوست کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پکڑا گیا تو میرے والد سختی کریں گے ،بیٹی کو خطرہ ہو کہ اگر میں کسی آوارہ لڑکی کے ساتھ تعلق اور علیک سلیک کروں گی تو میری والدہ گرفت کریں گی اس قدر والدین کا ڈر رہنا ضروری ہے باقی محبت اور شفقت سے پیش آئیں ۔
زوالدین کی بارہویں ذمہ داری‘‘ والدین کا فرض ہے کہ خود بھی حلال حرام کاخیال کریں اور اولاد کو بھی حلال حرام کی تمیز سکھائیں، والدین کے فرائض میں سے اہم فریضہ اولاد کو حلال حرام کی تمیز سکھانا ہے اور سب سے بڑی بات اور سب سے اہم بات حلال رزق کا انتظام کرنا ہے ،حلال کھانا اپنی اور اولاد کی دینداری میں بڑا مؤثر ہے ،اگر ہم بچوں کوحرام کھلائیں گے تو میرے بھائیو،بہنوں!کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ بچے دیندار بنیں گے ؟اگر مال ہے اور اسکی زکوٰۃ کا حساب کر کے والدین نہیں دیتے سونا ،چاندی ،گندم، چاول ہو ،اگر کوئی زمیندار ہے جو عشر نہ دیتا ہو ،میرے بھائیو! خیال کرو ناپ تول میں ہم ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ حلال مال کا اولاد کے نیک ہونے میں بڑا اثر ہے ۔
ز ’’والدین کی تیرہویں ذمہ داری‘‘ ایک خاص بات یہ ہے کہ اولاد کو بری صحبت سے بچائیں ،بچوں بچیوں کی سوسائٹی کیسی ہے؟اس بات کا بہت زیادہ لحاظ کرنا ہو گا ،حدیث پاک میں آتا ہے: ابو داؤد ،ترمذی شریف ترجمہ :ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہے۔ ہم بھی دیکھا کریں کہ ہماری دوستی کن سے ہے؟تو میرے بھائیو! ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم دو تین باتوں کو زیادہ اہمیت دیں تو یہ ساری باتیں ہی اہم ہیں ایک بات بڑی اہم ہے وہ یہ کہ غذا حلال ہو اور ایک یہ بات بڑی اہم ہے کہ بچوں کی سوسائٹی پر نظر رکھیںخاص طور پر آٹھ، نو سال سے لے کر اٹھارہ ،بیس سال لڑکی اور لڑکے کی یہ ساری زندگی کے بگاڑ اور سنوار کا مدار ہے لیکن اچھے والدین تو وہ ہیں جو شروع سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ’’بچی کو پردہ کب کروانا چاہیے؟‘‘ بزرگ کہتے ہیں سات سال کی بچی ہو تو اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھا دو۔جب بچی بالغ ہونے کے قریب ہوتو اس کے چہرے کا بھی پردہ کروا دیں، اب غیر محرم کے سامنے اس کا چہر ہ ننگا نہ ہو ۔ ’’پردے کی اہمیت‘‘ یہ مغرب کی گندی تہذیب اور گندا کلچر ہے، ہم ذہنی غلام بن گئے ہیں، اگر کہیں بچی دین پڑھنے چلی جائے، بچہ دین پڑھنے چلا جائے اور گھر کا ماحول نہ بنائیں اس کی ماں کا ڈوپٹہ گلے میں ہو ،بال کٹے ہوں ،باسزاروںمیں شاپنگ سنٹرزپر جائے تووہ بیٹی کیسے دیندار بنے گی ؟
زوالدین کی چودھویں ذمہ داری‘‘ میرے بھائیو! والدین کاایک اور فریضہ اولاد کی اخلاقی خرابیوں کے اسباب پر بھی نظر رکھناہے،یعنی وہ کون سے اسباب ہیں جنکی وجہ سے بچوں کے اخلاق خراب ہوتے ہیں مثلا بچوں کو غلط ساتھیوں سے ملنے دینا یہ اخلاقی برائیوںکا سبب ہے ۲۔ بچوں کی نگرانی نہ کرنا ۳۔بچوں سے باز پرس نہ کرنا ۴۔ ان کو آزاد چھوڑ دینا ۵۔ اسی طرح بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود میں لگ جائے اس سے بھی بچوں کے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں ۶۔۔ بچوں کو فلمیں دیکھنے سے نہ روکنا۔ ’’موبائل کا زہر‘‘ آج کل موبائل جس پڑھنے والے بچے اور بچی کے ہاتھ میں آگیا تو سمجھ جائیں کہ پچاس فیصد تو وہ تباہ ہوگیاموبائل فون ایک نعمت ہے لیکن ہر ایک کی ضرورت نہیں کوئی کاروباری ہے گھر کا سربراہ ہے گھر کا ذمہ دار ہے اس کی ضرورت ہے پڑھنے والے بچے بچی کی ہر گز ضرورت نہیں ہے ،خدا را! خدارا! جھولی پھیلا کر یہ بھیک مانگتاہوں ان دو باتوں سے بچوں کو بچائیں، ایک موبائل کا استعمال اوردوسرا غلط دوستی سے اپنے بچوں کو بچائیں، اولادیں سنور جائیں گی پیسے کا گُم ہوجانا بڑا نقصان نہیں ہے اللہ کی قسم جتنا بڑا نقصان اولاد کا گم ہوجانا، نسل کا گم ہوجانا ہے، آج پیسے کے گم ہوجانے پر ہمیں نقصان کا احساس ہوتا ہے لیکن اولاد کے گم ہوجانے اور ضائع ہوجانے پر احساس نہیں،بیٹی گھر سے نکلتی ہے موبائل اس کے ہاتھ میںہوتا ہے،بیٹا ابھی میٹرک پاس نہیں کرپاتاموبائل اس کے ہاتھ میںپکڑا دیتے ہیں، اس موبائل پر نظر رکھیں بے ہودہ رسالہ کتابچہ وغیرہ ان چیزوں پر نظر رکھیں،ایسی چیزیں گھر میںنہ آنے پائیں ۔
ز ’’والدین کی پندرھویں ذمہ داری‘‘ ایک اور والدین کی ذمہ داری بچوں کو بولنے کی تمیز دیناہے،اس بات پر توجہ دیں کہ آپ کا بچہ بولتا کیسے ہے ؟بڑوں سے ،چھوٹوں سے، ماں سے ،باپ سے، بہن سے ،بھائیوں سے۔ اکثر بچوں کی گفتگو میں، تو ،تم ،تو،تم یہ بد تمیزی ہے بد تہذینی ہے فوراً روکیں اور ٹوکیں تو ،تو کی بجائے آپ کا لفط استعمال کریں امی جان، ابو جان ،اسی طرح بھائی بہنوں کو بھائی جان، باجی جان کہنا ہے، جب گفتگو کرنی ہے تو آپ کا لفظ استعمال کرنا ہے تو اور تم کا لفظ استعمال نہیں کرنا اس پر نظر رکھی جائے۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ روزانہ اپنے بچوں کی ان چیزوں پر نظر رکھیںبچے آخر بچے ہیںوہ بھولیں گے ان کو یاد دلائیںبلکہ وہ اچھا عمل کر رہے ہوں تو تھوڑا سا انعام دے دیا کریں اوراگر گڑ بڑ کر رہیں ہوںتو تھوڑا سا ناراضگی کا اظہا ر کر دیا کریں۔n

Login to post comments