×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریاں

آبان 16, 1393 1302

گاڑی کے چار پہیئے ہوتے ہیں کوئی ایک پہیہ بھی اگر کام کرناچھوڑ دے تو گاڑی کی رفتار میں فرق آجا تا ہے ،اسی طرح بچے کی صحیح

تربیت کے حوالے سے چار طرح کے افراد خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔
(۱)ایک تو بچہ خود ذمہ دار ہو،کیونکہ جو بچے سمجھدار ہوتے ہیں اور اپنی پوری زندگی میں سنجیدگی سے کام لیتے ہیں وہ نقصان سے بچ جاتے ہیں لہٰذا اس میں بچوںکی اپنی ذمہ داری ہے گو آج کی نشست میں بچوں کی اپنی ذمہ داری کیا ہے؟یہ مرکزی موضوع نہیں ہے جہاں موقع ملتا ہے بچوں سے وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہتی ہے ۔ (۲)دوسرا طبقہ اساتذہ کاہے جو بچوں کی صحیح تربیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، جہاں بھی ہم بچوں کو تعلیم دلوائیں تو استاد کا کردار ،استاد کی فکر،استاد کا نظریہ ،استاد کی شرم وحیاکا معیار ،استاد کا اخلاص،اسکی کُڑھن دیکھیں، کیوں کہ یہ بچے کی زندگی میں اثراندازہونے کے لیے ایک اہم رکن ہیں۔دین دار شخص کی تربیت بہت عمدہ اثرات مرتب کرتی ہے ،جبکہ بے دین کی تربیت تباہی ہے۔ یہاںتک کہ اکابر نے ،اہل نظر نے،بزرگان دین نے لکھا ہے کہ بے دین شخص کی کتاب پڑھنے سے بھی نقصان ہوتا ہے کیونکہ بے دین شخص کی لکھی ہوئی کتاب بھی برُا اثر رکھتی ہے اور اخلاص اور تقویٰ والے شخص کی لکھی ہوئی کتاب اگر بچوں کو پڑھائی جائے تو وہ کتاب بچوں پر اچھا اثر ڈالتی ہے ۔ اس لیے میرے دوستو! ہم بچوں کے ہاتھ میں ہر کتاب نہ آنے دیں ،گھر میںفضول قسم کے ناول ،عامیانہ ڈائجسٹ اور جو خرافات پر مبنی لٹریچر بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو اسکا پڑھنا بعض اوقات انکی سوچ اور رخ کے بدل جانے کا ذریعہ بن جاتا ہے لہٰذا بے دین شخص کی کتاب پڑھنے سے بچایا جائے کیونکہ کتاب پڑھنے کا درجہ یہی ہے کہ جیسے اس کتاب لکھنے والے کی صحبت میں بیٹھا جائے اور جتنا کوئی شخص با عمل ہو گا اسکی کتاب میں اتنا ہی اثر ہوتا ہے اور جتنا بے دین شخص ہو گا اسکی کتاب میں اتنی ہی ظلمت اور اندھیرا ہو گا ۔
اس لیے نصاب تعلیم انسان کی تربیت کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے آئے دن کفار کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیںاور آئے دن امریکہ اور اسکے دیگر حواری ہمارے نصاب کو تبدیل کرنے کی باتیں چلاتے رہتے ہیں ،آخرکیوں چلاتے ہیں ؟ اگر نصاب کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو انہیں کیا تکلیف ہے مطالبہ کرنے کی ؟ہمارے سکولوں کالجوں کے نصاب میں قرآن وحدیث کی باتوں کو اس قدر کم سے کم کیاجارہاہے یعنی نہ ہونے کے برابر ۔ ہم اپنی سطح پر تو فکر مند ہوں کہ اپنے بچوں کے ہاتھ میں ہر قسم کی کتاب نہ آنے دیں ،بے حیائی پر مبنی ناول جو جہاں سے بھی ہاتھ میں آجائے بچے بچیاں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور برباد ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس لیے دوسری چیز جو بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوتی ہے وہ اساتذہ ہیں ،استاد کیسا ہونا چاہیے ؟ہم ان باتوں کو نہیں سوچتے ہیں آخر وہ بھی ہمارے بچے ہیں جن کے سینوں میں کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ مو جود ہے اور اس طرف دھیان نہ کرنے کی وجہ سے اور ہماری محنت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے وہ بچے جو بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں مغرب کی محنت کی وجہ سے اند ر سے کھوکھلے ہو چکے ہوتے ہیں ،تو عرض کر رہا تھا کہ بچوں کی تربیت میں دوسرا کردار استاد کا ہے ۔ (۳)اسی طرح بچے کی صحیح تربیت میں تیسرا کردار کسی بھی ادارے کی انتظامیہ کا ہوتا ہے ،جس ادارے میں ہمارا بچہ تعلیم حاصل کرے اس ادارے کی انتظامیہ کے نظریات کیا ہیں ؟اور وہ تعلیم و تربیت کے حوالے سے کتنے ذمہ دار اورمتحرک ہیں؟لہٰذا تیسرا اہم رکن ادارے کی انتظامیہ ہے ۔ (۴)اب چوتھی بڑی ذمہ داری جس کے حوالے سے آج تھوڑی سی گفتگو کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ ذمہ داری والدین کی ہے ،بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کوا سکول میں ڈال دیا یا دینی ادارے میں ڈال دیا تو اب ساری کی ساری ذمہ داری اس ادارے والوں کی ہے،والدین اپنے آپ کو مکمل یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی، ماں روٹی پکا کر دے اور والد کا کام پیسہ کما کر بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے ،اس بچے کی انفرادی زندگی،اجتماعی زندگی ،اسکی تہذیب و تربیت ،اسکی عادات، حرکات وسکنات ان میں کیا تبدیلی آرہی ہے ؟بہت سے والدین بالکل اس بات سے غافل ہوتے ہیں اور یہ بہت بڑی کمزوری ہے ۔ ’’اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت اور امانت ہے‘‘ بچے کی ولادت سے لے کر آخر وقت تک والدین کو کن باتوں کا دھیان کرنا ہوگاکہ والدین اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عظیم امانت کی خیانت کے جرم کے مرتکب نہ ہوں۔ہم سمجھتے ہیں کہ خیانت صرف پیسے میں ہوتی ہے ،ہمارے بچے ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہیں اور نعمت بھی ہیں ،ہماری اول سے لے کر آخر تک کیا ذمہ داریاں ہیں ؟اس پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ظ’’والدین کی پہلی ذمہ داری‘‘ سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا نام اسلامی رکھیں کیونکہ نا م کا بھی بچے کی زندگی اور عمل پر اثر ہوتا ہے ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ’’عاصیہ‘‘ تھا عاصیہ کا معنی ہوتا ہے ’’نافرمانی کرنے والی‘‘جب اسلام کی دولت ملی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیٹی کا نام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی روشنی میں تبدیل فرما دیااور نام جمیلہ رکھ دیا۔ ’’اسلامی نام رکھنے کی اہمیت ‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ مشہور ومعروف صحابی ہیں ،پانچ ہزار تین سو چوہتر(۵۳۷۴)حدیثوں کے یاد کرنے والے ہیں، تین سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں انہوں نے پانچ ہزار تین سو چوہتر حدیثیں یاد کیں،انکا پہلا نام’’ عبد الشمس ‘‘تھا اسکا معنی ہے ’’سورج کا بندہ‘‘جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے ،اسلام کی دولت ملی اب عمر بڑی ہے لیکن بڑی عمر کے باوجود بھی انکا نام تبدیل کردیا ،اب ہم کہیں گے کہ مسلمان ہوگئے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آگئے اب کیا ضرورت ہے نام کے تبدیل کرنے کی کیونکہ اصل چیز تو عمل ہے؟ نہیں بھائی نہیں !یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام تبدیل فرمادیا اور عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھ دیااس بارے میں کئی اقوال ہیں زیادہ مشہور یہ ہے کہ عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھ دیا ۔
پہلی گزارش یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے یہ ہے کہ بچے کا نام اسلامی رکھیں ۔ اسلامی نام کیا ہوتا ہے؟بہت سے والدین کو معلوم نہیں ،اسلامی نام ہر وہ نام ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبدیت ہو مثلاً عبد اللہ ،عبد الرحمن،عبد الکریم، عبدالوھاب وغیرہ ،اسی طرح جب بچوں کے نام اسلامی رکھیں تو انبیاء کے ناموں میں سے کوئی نام رکھیں ،صحابہ کے ناموں میں سے کوئی نام رکھیں
ظ ’’والدین کی دوسری ذمہ داری‘‘ دوسری چیز جو بچے کی ولادت پر والدین کی ذمہ داریوں میں سے ہے بچے کو گھٹی دینا ہے ،گھٹی کہتے ہیں ’’اللہ کے کسی نیک بندے کی زبان سے کوئی چیز جھوٹی کروا کر بچے کے منہ میں ڈالنا ‘‘عام طور پر شہد یا کھجور یا کوئی اور چیز ڈال دی جاتی ہے ،حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرات صحابہ کے ہاں جب بچے پیدا ہوتے تو رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ کے رسول ؐ سے گھٹی ڈلوائی جاتی ،آپؐ کوئی نہ کوئی چیز کبھی چھوہارا ،کبھی شہد ،کبھی کوئی اور چیز اپنی زبان مبارک میں رکھ کر اس بچے کے منہ میں ڈال دیتے تھے ۔
ظ’’والدین کی تیسری ذمہ داری‘‘ اگلی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو بیٹے کی طرف سے ،بیٹی کی طرف سے عقیقہ کریں،عقیقہ کسے کہتے ہیں؟بیٹی ہو تو ایک بکراذبح کریں اور اگر بیٹا ہو تو دو بکرے ذبح کریںساتویں دن ، ذبح کر کے گوشت صدقہ کر دیں ،مسکینوں کو کھلا دیں،غریبوں کو کھلا دیں ،رشتہ داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں اور خود بھی کھا سکتے ہیں ،اس سنت عمل سے بچے کی زندگی میں جو بلا ہے وہ ٹل جاتی ہے ،بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بکرا ذبح کرنا ہی ضروری ہے حالانکہ اگر کوئی غریب ہو اور بکرا ذبح نہ کر سکتا ہو تو اسکے لیے یہ ہے کہ تھوڑا بہت صدقہ کردے ۔مقصد یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور ہو۔
ظ’’والدین کی چوتھی ذمہ داری‘‘ اس سے اگلی ذمہ داری والدین کی یہ ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسکو زبان سے نماز کی تلقین کریںاور جب دس سال کا ہوجائے تو سختی کر کے پڑھوائیں، اگر والدین اس بات پر سختی نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سوال ہو گا ۔
ظ’’والدین کی پانچویں ذمہ داری‘‘ ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب بچہ بولنے لگے تو حدیث میں حکم ہے کہ بچے کو کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھائو اور خاص طور پر چار گناہ برے خاتمہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں:
ظ ’’والدین کی چھٹی ذمہ داری‘‘ ایک اور خاص بات قرآن مجید کی تعلیم دینا ہے ،ڈاکٹر بنے ،انجینئر بنے،تاجر بنے یہ دنیا کی ضرورت ہے لیکن قرآن مجید اسکی قبر میں حشر میں دنیامیں ضرورت ہے،باقی اگر حافظ عالم بن جائے تو بڑے درجے کی بات ہے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو جو سب سے بہتر تحفہ دیتے ہیں وہ دین کی تعلیم ہے جس والد نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو اچھا ادب سکھا دیا ،اچھا انسان بنا دیا جب اچھے انسان کا تصور آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جو پیسہ کمانے والا ہو ،پیسہ کمانا منع نہیں ہے لیکن پیسہ ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہے پیسہ ایک ضرورت ہے لیکن اب مقصد بن گیا ہے حالانکہ انسان بننا مقصد ہے اور یہ بھی نہیں رہا ۔
بشکریہ:اردو نیٹ

Login to post comments