گئے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آ کر رہ گیا ۔ اس شعر میں زندگی کا وہ رمز چھپا ہوا ہے کہ جو،اسے سمجھ لے دُ نیاکی فتوحات اس کا نصیب بن سکتی ہیں۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ رمز بہ آسانی سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ اکثر اوقات ہم کسی چیز کی ظاہری کشش ہی میں گم ہوجاتے ہیں نتیجے میں اس کی اصل صورت سے بے خبر رہتے ہیں۔ شوق ایک عام سا لفظ ہے مگر اس کی حقیقت عام نہیں بلکہ یہ تو تمام ’خواص‘ پر بھی نہیں کھلتی یہ تو ’خاص الخواص‘ پر وہ بھی ایک امتحان کے بعد اپنے دَر وا کرتی ہے اور جس پر اس کے دروازے کھل گئے اُس پر ’ زندگی ‘ بھی اپنے تمام دروازے کھول دیتی ہے۔ نیلے آسمان کے نیچے اس خاکی اور کھردری زمیں پر بیشمار ابنِ آدم پیدا ہوئے اور دور دور تک چہار سمت پھیلے ہوئے صدیوں سے خموش اس نیلے آسمان نے دیکھا کہ بیشمار پیدا ہونے والے ابنِ آدم اپنی عمر کے طے شدہ زینوں سے نیچے اس خاکی اور کھردی زمین کے گڑھے میں اُتر گئے اور پھر وقت کی آندھی نے اُن کا نام، ان کا کام سب کچھ اُڑا دِیا، سب کچھ ہوا ہوگیا اور پھر دو پیروں اور دو ہاتھوں والے ہزارہا خواہش کے ساتھ زمین کو روندنے کےلئے پیدا ہوگئے۔ ہم زمین پر جب تک رہتے ہیں یہ بھولے رہتے ہیں کہ ایک دن اسی زمین میں ہم اُترےں گے یا اُتاردِیے جائیں گے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زمین کا، مِٹّی کا رِزق تو ضرور بنتے ہیں مگر صرف ان کے تن کی مٹی ہی زمین کو ملتی ہے اور ان کا اصل توکہیں اور زندہ ¿ جاوید ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ کہیں آسمان سے نہیں ٹپکتے، اسی زمین سے اُٹھتے ہیں ۔آئیے کہانی نہیں ایک حقیقت بیان کرتے ہیں، ہو سکتا ہے آپ ا س سے واقف ہوں مگر پھر بھی یہی سمجھ کر کہ کچھ آموختہ ہوجائے گا، اک ذراتو جہ کر لیں کسی شہر میں ایک خاص اسکول تھا ۔ اس اسکول کی فیس وغیرہ اتنی مہنگی تھی کہ ہر آدمی اس اسکول میں اپنے بچوں کو نہیں پڑھا سکتا تھا۔ انہی لوگوں کے بچّے اس اسکول میں داخل ہوتے تھے جو مال دار تھے۔ اس اسکول کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہاں ایک خاص علم کی تدریس ہوتی تھی جس کے لئے ایک خاص اور ماہر استاد مقرر تھا۔ ایک غریب کا لڑکا اِس اسکول میں پڑھنے کا خواہش مند ہوا، اسے ٹال دِیا گیا کہ تمہارے سرپرست اس اسکول کی فیس نہیں دے سکتے۔ لڑکا شوق و ذوق کا دَھنی تھا ۔ اس نے مذکورہ اسکول کے ذمے دار سے کہا کہ ” سَر! آپکے اسکول میں ایک بڑی تعداد میں لڑکے پڑھتے ہیں اور ان کا رہنا سہنا اور کھانا پینا یہیں ہوتا ہے آپ اگر مجھے اسکول میں کوئی معمولی سی بھی ملازمت دیدیں تو میں زندگی بھر آپ کا شکر گزار رہوں گا۔“
مختصر یہ کہ اس لڑکے کو اس اسکول میں ملازمت مل گئی۔ وہ لڑکا وہاں ایک مدت تک اسکول میں صاف صفائی کا کام کرتا رہا۔ اِسکول کے دیگرطالب علم اپنا کورس مکمل کر کے جاتے رہے۔ ایک دن وہ بھی آیا جب اس لڑکے نے بھی اسکول کی صاف صفائی کی ملازمت چھوڑ کر دُنیا کا راستہ اختیارکیا۔ وقت کب اور کہاں ٹھیرتا ہے وہ گزر تا رہا مذکورہ اسکول کے وہ اُستاد جو اپنے خاص علم کےلئے یکہ و تنہا تھا ایک مدت بعد اس استاد ِ محترم کا اپنے شہر سے کہیں دور ایک ٹاو ¿ن میں گزر ہوا تو وہاں کے متمول لوگوں سے باتوں باتوں میںاُن پر کھلا کہ ”یہاں ایک اسکو ل ہے جس میں آپ کے خاص علم کی تدریس ہوتی ہے اور ایک جواںسال اُستاد ہے، کیا بلا کا ذہن پایا ہے اُس نے۔“ ان حضرت کو احساس ہوا کہ میرے علم کا کوئی ثانی تو ملا چلو اس سے ملتے ہیں۔ خیر سے جب وہ اسکول پہنچے اور اُس اُستاد کا سامنا ہوا تو دونوں ایک لمحے کےلئے حیران وپریشان ہوئے مگر دوسرے لمحے وہ جواں سال اُستاد نم آنکھوں کے ساتھ آنے والے اُستادکے قدموں پر تھا۔ اب اس روداد کو مختصر کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں۔ آنے والے اُستاد نے بھی جواں سال اُستاد کو ایک آن میں پہچان لیا۔ اب جب کمرے میں دونوں بیٹھے تو سینئراُستاد نے جواں سال سے سوال کیا ۔ یہ علم ِخاص تم نے کیسے حاصل کیا؟ تم تو ہمارے اسکول میں صاف صفائی کا کام کرتے تھے۔ جواب ملا: ” سَر! مجھے شوق تھا کہ کسی بھی طرح اس علم کو میں حاصل کروں گا، لہٰذا میں، صاف صفائی کے کام کے دوران اپنے کان اور دماغ کو کھلا رکھتا تھا اور اکثر اوقات مَیں آپ کی کلاس کے آس پاس ہی رہتا تھا اور بع ©ض طلبا سے کچھ سوال وجواب بھی کرتا رہتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ “
اس کے آگے جاننے کے مشتاق قارئین اپنے طور پر بھی بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات توبالکل صاف ہوگئی کہ شوق اگر ہو تو پہاڑ اور گہرے سمُندر بھی آڑے نہیں آتے۔
ہمیں تو ایک شعر نے اس تحریر پر اُکسایا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ دانائے راز و ختم رسل نے چودہ سو سال قبل ہی دُنیا کو بتا دِیا تھا کہ”شوق میری سواری ہے۔ “ ہم نے یہ بھی لکھا ہے بسا اوقات ہم ’ظاہر‘ ہی میں گم ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک شرح یہ ہے کہ شوق ہم پر سوار ہوجاتا ہے اور پھر ایسے میں نتیجہ کیا ہو گا۔؟ صاحبانِ بصیرت کےلئے یہ سوال کوئی سوال ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ بعض سوال خود اپنا جواب بن جاتے ہیں، بس آپکے پاس بصارت کو بصیرت میں بدلنے کی قوت ہونی چاہئے۔ ہمارے ہاں ” قوتِ بازو“ کا بڑا شور تھا مگر اب وہ شور تھم گیا ہے کہ اب تو سارا کام بصیرت ہی کی قوت کر رہی ہے۔ مگرہشیار کہ بصیرت بھی اپنے آپ میں منفی اور مثبت رویے کی حامل ہوتی ہے اور یہاں وہی مددگار ہوگا جو حقیقت میں بصیر ہے یعنی اُس سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے ورنہ تو ابو جہل سے ہٹلر تک’ صاحبانِ بصیرت‘کی ایک بڑی فہرست ہے۔
اس کالم کی تحریک بننے والا شعر اپنے ثانی مصرعے میں کوئی راز افشا کر رہاہے۔
ذرا پڑھیے تو پورا شعر”شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل ہی نہیں ٪شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے “ دراصل یہی ” مشکل“ ہے۔ اس مشکل کو جس نے حل کرلیا اس پر آسانیوں کے تمام دَر کھل جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں صرف ہجرتِ نبوی سے لے کر فتحِ مکہ تک بڑے بڑے پہاڑ ہوا میں اُڑے ہیں اور اگر آپ اِنسانی تاریخ کے مزید اوراق اُلٹےں تو بعض حقیقتیں وہاں بھی آپ کی منتظر ملیں گی۔ بس ذرا شوق کی قوت پیدا کر لیں اور ہاں شوق کو کمزوری نہ بننے دیں ورنہ سب خاک ہو جائے گا۔
ندیم صدیقی، ممبئی
تازہ ترین