×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

سہرا برائے محمد اصغر ابن عابد حسین

مهر 03, 1393 2362

کتنا ہے پُر کیف منظر دلکشی سہرے میں ہے


یا ضیائے پنجتن کی روشنی سہرے میں ہے

سنت مرسل کی کیا تابندگی سہرے میں ہے

نور زہرا و علی کی جلوگی سہرے میں ہے

باغ جنت کی لگی اک اک کلی سہرے میں ہے

حوض کوثر سے دُھلی ہر اک لڑی سہرے میں ہے

دست عابدؔ سے بندھا سہرا رخ اصغرؔ پہ جب لب پہ نجمہؔ کے دعائے دلبری سہرے میں ہے

ہے پھوپھی نازوؔ کی محنت ہفتوں سے سوئی نہیں رات دن لب پہ دعا ہے اصغریؔ سہرے میں ہے

خواب جو دیکھا تھا اس کی مل گئی تعبیر آج ہے گلِ جعفرؔ کی بوئے نرگسی سہرے میں ہے

مسکرا کر کہہ رہے ہیں رفیقؔ بابا اور ریاضؔ ہو بھتیجے کو مبارک جو خوشی سہرے میں ہے

دیکھ کر لب پہ دعا یہ آگئی مختارؔ کے تا ابد پھولے پھلے یا رب بنی سہرے میں ہے

خوش ہے نقنؔ اور عشرتؔ شادماں تہذیبؔ ہیں موجزن دل کی تمنا اب وہی سہرے میں ہے

ہو کہ خوش کہنے لگے یہ انیسؔ و صغیرؔ نسل آدم کی بقائے باہمی سہرے میں ہے

خوش شکیلؔ ہیں اور شمیمؔ مسکراتے ہیں ندیمؔ بن گئی ہے پیار کی اب ہتھکڑی سہرے میں ہے

خوشدل ہے ناصر و ذاکر بہنیں بھی شاد ہیں سرپہ بھائی کے ہیں سہرا خوش بھری سہرے میں ہے

ببلی کی خوشیاں نہ پوچھو چین اس کو پل نہیں اس کی خوشیاں، اس کی دولت بس اسی سہرے میں ہے

چل پڑی ہے ذوالفقار ساتھ دولہے کو لئے باحفاظت یہ رہے ناد علی سہرے میں ہے

یہ امیرؔ، زین العباؔ، احسنؔ، بشارتؔ نے کہا درحقیقت سارا لطف زندگی سہرے میں ہے

خوش رضاؔ ہیں زینؔ و ساحلؔ اور خوشنما گھونگھٹ میں ماموں کی بنی سہرے میں ہے

ماں، بہن، پھوپھیاں، ممانی اور خالہ شادماں حق سے جو مانگی دعا سمٹی وہی سہرے میں ہے

دیکھ کر سالے کی خوشیاں سلیمؔ جاویدؔ نے کہا لائن میں آجاؤ بیٹا اب چھڑی سہرے میں ہے

چٹکیاں لیتے ہوئے جعفرؔ نے اخترؔ سے کہا بن گیا دولہا بیچارا، بیچارگی سہرے میں ہے

شکر کا سجدہ کیا ہے پڑھ کے آنچل پہ نماز عشق سجدہ ریز ہے اور بندگی سہرے میں ہے

خوش رہیں دولہا دولہن اپنی دعا ہے یہ اثرؔ تاابد پھولے پھلیں جو زندگی سہرے میں ہے

سیدذوالفقار حیدر اثرؔ  (ممبرا،تھانے)

Last modified on پنج شنبه, 29 بهمن 1394 23:15
Login to post comments