اس معاملے نے شیعہ عالم نمرالنمر کی سزائے موتپر عمل درآمد کیے جانے کے بعد زور پکڑا ہے۔ جبکہ مارے جانے والے القاعدہ اور داعش کے ساتھ وابستہ باقی47 سنی انتہا پسندوں کی موت دوسرا معاملہ ہے۔
سعودیوں کو وجودی خطرہ نہ تو قطیف میں ابھرنے والے شیعہ ہنگاموں سے لاحق ہے اور نہ ہی ایران کی ابھرتی ہوئی طاقت سے۔
الریاض اپنے اندرونی خطرات کی وجہ سے شش و پنج میں مبتلا ہے۔ ایران اور شیعہ محراب کو تو اندرونی معاملات کو بیرونی رنگ دیے جانے کی خاطر برتا جا رہا ہے۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ الحاق پر دباؤ اور سعودی معاشرے میں وسیع ہوتے ہوئے رخنوں کو جوڑا جانا درکار ہے۔ خطے کی توجہ ایران کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے پر بلاوجہ مبذول کرائے جانے پر راغب کیا جا رہا ہے۔ اس طرح سعودی شہریوں کی نگاہیں یمن کی جیتی نہ جانے والی جنگ میں ہر ماہ خرچ ہونے والے ایک ارب ڈالر، سعودیوں کے مقاصد کے لیے ناسازگار شام کے سکرپٹ کی مین میخ، نیچے کی جانب جاتی معیشت، اسی طرح اوبامہ کیری ٹیم کی جانب سے الریاض سے ہدایت لینے کے بہانے سے گریز کو ڈھانپے جانے کی خاطر ایک پردے کی ضرورت ہے۔ اور شیعہ خطرہ یہ پردہ ہے۔
درست ہے کہ اندرونی مسائل آج دکھائی دینے لگے ہیں مگر ان کے منابع پرانے ہیں۔ 1979 دو زمین ہلا دینے والے واقعات کے باعث سعودی مقتدر اشرافیہ کے اذہان میں کندہ ہوگا: ایک تو وہ انقلاب جس کے توسط سے ایران میں آیت اللہ اقتدار میں آئے تھے، دوسرا مسجد حرام پر قبضہ کیے جانے کا واقعہ۔
دوسرے واقعے نے سعودی حاکموں کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ یہ سعودی بادشاہت کے خلاف ناراضی پن کا وسیع پیمانے پر اظہار تھا۔ اسلام میں "بادشاہ" کا تصور فسق ہے۔ چنانچہ سعودی بادشاہ نے مکہ کی یورش اور انقلاب ایران کے بعد ہی خود کو مخاصمے سے بالا رکھنے کی خاطر "خادم حرمین شریفین" کا لقب دیا تھا۔
مکہ کی یورش کا سربراہ جیمن القطیبی اگر آج زندہ ہوتا تو وہ الریاض کی مخالفت میں قائم کردہ اسلامی ریاست کا سربراہ ہوتا۔ ویسے ہی جیسے اس واقعے کے سلسلے میں ایران کے انقلاب کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ویسے ہی آج شیعہ خطرے کو ہوا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں سعودیوں کو شام اور عراق میں انتہا پسند یورشوں کی بھاری قیمت تب چکانی پڑی جب دسمبر 2014 میں عراق کے ساتھ لگنے والی سلطنت کی شمالی سرحد کو داعش کے ساتھ وابستہ عناصر نے پامال کیا تھا۔ کارروائی کے دوران سعودی جنرل عوید البلاوی مارے گئے تھے۔ کیا سرحد کی اس حد تک پامالی "اندر" سے اعانت ملے بغیر کی جا سکتی ہے؟ اس طرح کے مخمصے ہیں جو سعودی حاکموں کو مضطرب کیے ہوئے ہیں۔
اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ دنیا کے مسلمانوں میں سنیوں کی آبادی زیادہ ہے مگر اس حقیقت سے وہ خطرہ چھپایا جانا درست نہیں جس کا کہ سامنا ہے۔
اگر دنیا کی سنی آبادی پر سعودی حاکموں کو اس قدر تکیہ ہے تو انہوں نے عبدالفتاح السیسی کی فوج کو کٹر سنی العقیدہ وزیر اعظم محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی خاطر کیوں استعمال کیا تھا؟ وجہ یہ ہے کہ الریاض شیعوں سے زیادہ اخوان المسلمین سے خائف ہے۔ اخوان ایک شدید بادشاہت مخالف سیاسی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی سعودی عرب میں بھی خاموش حمایت خاصی زیادہ ہے جو بارہا سوشل میڈیا پر نمایاں ہو چکی ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردگان سنی اتحاد کی سربراہی کے ایک اور امیدوار ہیں جنہوں نے انصاف اور ترقی کا یہ جبہ صرف تب زیب تن کیا جب ترکی کے سیکیولر آئین نے ان کے گرو نجم الدین اربکان کو وزیر اعظم بننے سے اس لیے روک دیا تھا کہ رفاہ پارٹی جس کے کہ وہ سربراہ تھے کچھ زیادہ ہی بنیاد پرست اسلامی جماعت تھی۔
اگر اخوان سعودیوں کے لیے قابل قبول نہیں تو طیب اردوگان کس طرح وہابی بادشاہت کے لیے جائز ہو گئے ہیں۔
الریاض نے سوڈان کو اپنے اتحاد میں شامل کیا ہے جبکہ 1881 سے 1891 تک مہدی نے برطانیہ کے خلاف جو جنگ لڑی تھی اس کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقناطیسی شخصیت کے حامل مہدی "صوفی" تھے۔ ریاض کے اتحاد کے محکم پن سے متعلق کئی سوالات ہیں۔
ایک شیعہ محور کے ساتھ مقابلے کی خاطر الریاض نے سنی اتحاد کس طرح سے ترتیب دیا ہے؟ سلطنت کی جانب سے تیار کردہ سنی اتحاد کی یہ فہرست سربراہان مملکت کے اسماء پر مبنی ہے، ان ملکوں کے لوگوں سے متعلق نہیں۔ ایک شیعہ اتحاد، اگر ایسا کبھی بنا بھی تو اسے لوگوں کی حمایت حاصل ہوگی۔
تہران کی جانب سے کسی شیعہ محور یا اتحاد بنائے جانے کا کوئی اعلان دستیاب نہیں ہے۔ ایران اور بحرین میں شیعہ آبادی بہت زیادہ ہے۔ عراق کی 65 فی صد آبادی شیعہ ہے۔ لبنان، کویت، سعودی عرب، شام، امارات، مصر، ترکی، سوڈان، پاکستان ان سب ملکوں میں یا تو شیعوں کی آبادی اچھی خاصی ہے یا کم از کم وہ مؤثر ضرور ہیں۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ قاہرہ کے نستعلیق حلقوں میں ایک کہاوت ہوا کرتی تھی: "سنی بالدین، شیعہ بالہاوا‘ یعنی سنی عقیدے سے ہوتا ہے اور شیعہ ثقافت کے توسط سے۔ اس کی وجہ 200 سال تک خطے میں فاطمیوں کی حکومت کا ہونا تھا۔
مغربی ایشیا کے بیشتر مبصرین کے لیے یمن کی ہئیت ایک معمہ ہے۔ یمن کے سابق عبداللہ صالح ایک سنی ہیں لیکن یمنیوں کی اکثریت کی مانند زیدی بھی ہیں۔
عثمانی خلافت کا 1924 میں خاتمہ ہو گیا تھا مگر امامت، ایسا نظام ہے جس میں امام اولٰی ہوتا ہے، وہ یمن میں 1962 میں تمام ہوئی تھی۔ امام جو لوگوں کے عقیدے کی سربراہی کرتا ہے اسے ایک مسجد کے امام جیسے کے دہلی کی جامع مسجد کے امام ہیں کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔
جنگ کربلا کے بعد جو 680 عیسوی میں ہوئی تھی، امام حسین کے ایک پوتے زید ابن علی سرحد عبور کرکے یمن پہنچ گئے تھے تاکہ ان لوگوں کے خلاف جنگ جاری رکھ سکیں جنہوں نے کربلا میں امام حسین کو شہید کر دیا تھا۔ شیعیت البتہ یمن میں بہت دیر تک نہیں پہنچی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حوثی کہیں بعد میں جا کر شیعہ ہوئے تھے۔ اس طرح سے کیا یمنی الریاض کے فرقہ وارانہ اتحاد میں فٹ بیٹھتے ہیں؟
شیعہ سنی مناقشے کی جزئیات کو تلاش کیا جانا اتنا ہی دشوار ہے جس طرح گھاس کے ڈھیر میں سے سوئی کھوجنا۔
الریاض کی جانب سے معاملے کو ہوا دینے کا مقصد دہری نوعیت کا ہے ایک تو یہ کہ اپنے ملک کے خطرناک اندرونی معاملات پر پردہ ڈالا جائے دوسرے یہ کہ امریکہ میں اسرائیل کی لابی کو ایران کے ابھار کے خلاف ایک اور پتہ تھما دیا جائے۔ یہ الریاض اور یروشلم کا مشترکہ مقصد ہے۔ لابی کا کام یہ ہوگا کہ امریکی صدر کی انتخابی مہم میں فرقہ وارانہ مناقشے کوزیادہ اجاگر کیا جائے تاکہ سعودیوں کے حق میں دلیل مضبوط ہو سکے جنہیں بہت سے غیر اعلان شدہ منصوبوں میں مالی اعانت فراہم کرنے کی جانب راغب کیا جا سکے گا۔
سعید نقوی